ظلمت کے اندھیروں کا اثر بے اثر ہوا
جس دم جہاں میں نور تقی جلواگر ہوا
تقوے کا نور ان سے ہی پھیلا جہاں میں
شاداب دو جہاں میں رضا کا شجر ہوا
الفت تقی سے جو بھی رکھے شاد بعد ہے
منکر تقی کا کوئی بھی ہو در با در ہوا
دسویں رجب کو آے ہیں مولا تقی ظہیر
دانشوروں میں جشن تقی رات بھر ہوا