ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
ظالم نے روزدار کو ضربت لگائی ہے
انیسویں کی صبح کا منظر عجیب تھا
مولاۓ دو جہاں کا کنبہ غریب تھا
زخمی علی ہیں رونے کو ساری خدائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
ارکانے دینے حق کو گرایا نماز میں
گھر میں خدا کے خون بہایا نماز میں
جبریل نے سنانی یہ روکر سنائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
مسجد میں خون بھ گیا شیرے اله کا
محشر بپا ہے کوفے میں فریادو اہ کا
سر پر علی کے تیغ یہ کسنے چلائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
چہرا ہے سارا خون میں تر و محمّدا
روزے میں روزدار پا کیسا ستم کیا
مولا ے دو جہاں کو ضربت لگائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
بابا کو لیکے گھر میں جو آے حسن حسین
شورے فغاں تھا زینبو کلثوم کے تھے بین
خاکے یتیمی کسنے سروں پر اڈائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
سر کوعلی کے دیکھکے حیراں طبیب ہے
ہے زندگی محال شہادت قریب ہے
ضربت شخی نے زہر میں اپنی بجھائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
روتی رہیگی مسجدو محرراب اور ازاں
لو چل بسا زمانے سے مولاے دو جہاں
بچچے ہیں بے بسی ہے پدر کی جدائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
ماتم بپا ہے حیدرے کررر کا ظہیر
تابوت ہے یہ شیون کے سردار کا ظہیر
لینے کو پرسا فاطمہ جنّت سے آئ ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے