ہر گام موحبّت کا پیغام سکینہ ہے
شبّیر کو خالق کا انعام سکینہ ہے
خوشبو ہے بسی جیسے ہر پھول کے دامن میں
عبّاس کے سینے میں ایک نام سکینہ ہے
ہر گام موحبّت کا پیغام سکینہ ہے
شبّیر کو خالق کا انعام سکینہ ہے
خوشبو ہے بسی جیسے ہر پھول کے دامن میں
عبّاس کے سینے میں ایک نام سکینہ ہے
اسکو جہاں میں دوستوں اذّت نہیں ملی
جسکو غمے حسین کی دولت نہیں ملی
و لوگ آکے لیٹ گئے ہیں مزار میں
جن کو کبھی رسول کی قربت نہیں ملی
اس قوم کو بلندیاں کیسے نصیب ہوں
مسلے خمینی جیسو قیادت نہیں ملی
کرنے کو جنگ جھولے سے بشیر آ گیا
جب سے سنا چچا کو اجازت نہیں ملی
اصغر نے مسکرا کے لبوں کی کمان سے
ایسا کیا ہے وار کے موہلت نہیں ملی
اکبرکی و ازاں تو ابھی بھی جوان ہے
بے وقت جو ہوئی اسے قیمت نہیں ملی
حیدر نے پآیی اور یہ پایی حسین نے
سجدے میں ہر کسی کو شہادت نہیں ملی
کیوں کر نا انکی آل کو کھٹکے غم حسین
جنکو نبی کے غم کی بھی فرصت نہیں ملی
بے حببے اہلبیت بھی جنّت کے خواب ہیں
کعگزکے پھول سے کبھی نکہت نہیں ملی
٣٧ شہید پوھچے ہیں میثم کی بزم میں
پھر وقت کے یزید کو بیت نہیں ملی
اے حساب لینے ملک مینے یہ کہا
مدھے ابو تراب سے فرصت نہیں ملی
مرتے نہیں ہے حق ہے شہیدانے راہے حق
ہر اک شہید کو یہ فضیلت نہیں ملی
کیسے نکالیں اب و جلووسے غم حسین
جنکو نبے کے دفن کی فرصت نہیں ملی
ہم پر ظہیر فرشے عزا کا کرم ہے یہ
ہو کر وطن سے دور بھی زحمت نہیں ملی
میرے مولا میرے آقا میرے سرور نظر آے
کروں جو بند میں آنکیں مجھے حیدر نظر آے
ابوطالب کے گھر میں دین کے رہبر نظر آے
کہیں احمد نظر آے کہیں حیدر نظر آے
کہا بنتے اسد نے آج یہ کعبے سے مس ہوکر
ولی حق کی آمد ہے نیا اک در نظر آے
رجب کی تہروی آی تو کعبہ ہو گیا روشن
علی بیت خدا میں نور کا پیکر نظر آے
یہ انگلی کا اشارہ تھا یا کوئی وار ضربت کا
جھپکی پلک بس ایک دو اجدر نظر آے
گلے نازک ہو جسے کسی کمسن ہاتھوں میں
علی کے ہاتھ پا اس طرح سے خیبر نظر آے
حقیقت میں غلامیں حیدر ے کررار جو ڈھونڈھے
کہیں میثم کہیں بوذر کہیں قمبر نظر آے
تمہارا شیخ جی ایمان اس دم ہو گیا ظاہر
نبی حیدر کو لیکر جب سرے ممبر نظر آے
نام پر پیاسوں کے پانی جو پلا آتے ہیں
اسکی امداد کو عبّاس صدا آتے ہیں
غیر ممکن ہے و مایوس کبھی جاتے ہوں
جو دعا لے کے کبھی کربو بلا آتے ہیں
میری اوقات کہاں میں جو کروں مدح سنا
میرے الفاظ پے مدھو سنا آتے ہیں
ہے جو انور کا رحمت کا صخاوت کا گھر
ہان اسی گھر میں شہنشاہ ے وفا آتے ہیں
زینبی شیر ہے ماں فاطمہ بھائی حسنین
مانگی حیدر نے جو خالق سے دعا آتے ہیں
سر زمانے کے یزیدوں کا کچلنے کے لیں
آج دنیا میں سکینہ کے چچا آتے ہیں
کربلا دیکھ تیری ضررا نوازی کے لیں
خلد کو چھوڑ کے انوارے خدا آتے ہیں
تیرے اشعار تجھے خلد میں لے جاینگے
سننے اشعار تیرے شیرے خدا آتے ہیں