یہ شہادت جو ہو گی لوگوں
موت بھی روتی رہ گئی لوگوں
ایک آواز جو باطل کا دل ہلاتی تھی
اب و خاموش ہو گی لوگوں
یہ شہادت جو ہو گی لوگوں
موت بھی روتی رہ گئی لوگوں
ایک آواز جو باطل کا دل ہلاتی تھی
اب و خاموش ہو گی لوگوں
حوصلہ حیدر کررار سے لے کر ایران
کیا بھلا وار وو اس پار نہیں کر سکتا
جیتنا جنگ تیرے بس میں نہیں ہے ظالم
تو تو ایک وار بھی بیکار نہیں کر سکتا
سجی محفل ہیں مسرّت کا دن ہے
امام زمانہ سے قربت کا دن ہے
درود سلامت کے تحفے سجاؤ
حسن اسکری کی ولادت کا دن ہے
ہماری نسلوں میں ہے محبّت خدا کے گھر سے علی کے در سے
ہمیں ملی ہے جہاں میں فرحت خدا کے گھر سے علی کے در سے
ہم ہی نے پاے رسول اکرم ہم ہی کو بارہ ملے ہیں رہبر
اذان جیسے ہے پھر اقامت خدا کے گھر سے علی کے در سے
ہے خوش نصیبی جو ہم نے پائی غدیر خم اور عزا سرور
ہےایک نعمت تو ایک عبادت خدا کے گھر سے علی در سے
ہوئی ہے صدیاں مٹا نا پاے ابھی تلک بھی نشان آمد
ہے شیخ جی کو عجیب دقّت خدا کے گھر سے علی کے در سے
امام حق ایگا یہیں سے علم و لہراۓ گا یہیں پر
اٹھے گا پردہ کھلے گی غیبت خدا کے گھر سے علی کے در سے
یہ بولے میثم زبان میری کٹی تو کوئی بھی غم نہیں ہے
ہوئی ہے لبریز میری چاہت خدا کے گھر سے علی کے در سے
اتر کے تارا بتا رہا ہے نبی سے رشتے کا معملا ہے
فقط بتانی ہے مجھکو نسبت خدا کے گھر سے علی کے در سے
سلام عظمت پا شہزادی تیرے وسیلے کا موجزا ہے
جو مل رہی ہے ہر ایک حاجت خدا کے گھر سے علی کے در سے
عزا شاہ میں لوٹا رہے ہیں پھراور زیادہ بھی پا رہے ہیں
ہے رزق و روزی میں اپنے برکت خدا کے گھر سے علی کے در سے
کسی نے تو حق علی چھینا کسی نے آ کر و در جلایا
ہوئی ہے کس پر بتاؤ لعنت خدا کے گھر سے علی کے در سے
ظہیر مدحت کا معجزہ ہے یہ تری ماں کی دعا یں بھی ہیں
جہاں بھر میں ملی ہے اذّت خدا کے گھر سے علی کے در سے
اربعین شہ انبیا ہے – سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
ہم کو غازی نے موقہ دیا ہے – سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
جس طرف بھی نظر جا رہی ہے – ساری خلقے خدا رو رہی ہے
سر پے غازی کا پرچم کھلا ہے – سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
ساتھ بوڑھوں کے دیکھو جواں ہیں – ماؤں کے ساتھ میں بیٹیاں ہیں
کم سنوں کا بلند حوصلہ ہے – سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
نید آنکھوں سے سب کی اڈی ہے -اب تو بس کربلا کی پڑی ہے
لب پہ بس کربلا کربلا ہے – سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
سوچ کر آنکھیں تر ہو رہی ہیں – ساتھ میں سیدہ چل رہی ہیں
ہاے پیاسوں کا ماتم بپا ہے -سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
ہاے پیاسوں نے پانی نہ پایا – گھر کو بشیر واپس نا آیا
ہر عزادار محو بکا ہے – سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
شہ کی دختر کا دامن جلایا – خون کانو سے اسکے بہایا
دل غموں سے پھٹا جا رہا ہے – سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
اس سفر کی کہانی نا پوچھو – تم بھی جاؤ زبانی نا پوچھو
اے ظہیر اب یہ ہی بس دعا ہے – سب کا پیدل نجف سے سفر ہے
لو شام چلی میں بابا شانوں میں رسن بندھوا کے
بے گورو کف تھا بھائی میں آ نا سکی دفنا کے
اب خاک پہ سب سوتے ہیں میرا اکبر میرا غازی – میرا اکبر میرا غازی
اسباب بھی سب لوٹا ہے چادر بھی سر سے اتاری – چادر بھی سر سے اتاری
خیموں میں آگ لگی جب تھا کون بچاتا آکے
لو شام چلی میں بابا شانوں میں رسن بندھوا کے
ٹکڑے ٹکڑے ہے بابا لاشہ بھی ابن حسن کا – لاشہ بھی ابن حسن کا
ہے نظر خزاں اے بابا ہر پھول تمہارے چمن کا -ہر پھول تماہرے چمن کا
امما کی ساری کمائی سب جاتی ہوں میں لوٹا کے
لو شام چلی میں بابا شانوں میں رسن بندھوا کے
بے پردہ لئے جاتے ہیں رسسی میں جکڈ کر ہم کو
اس طرح بندھے ہیں بازو مجبور ہوئی ماتم کو
مر جاؤں کہیں نہ بابا صدموں پے صدمے اٹھا کے
لو شام چلی میں بابا شانوں میں رسن بندھوا کے
محمل نہ عماری کوئی بے پردہ اہلے حرم ہیں
اتٹھارہ ہوں جسکے بھائی اس پر یہ سارے ستم ہیں
کیوں روٹھ گیا میرا غازی تم لاؤ اسکو مانا کے
لو شام چلی میں بابا شانوں میں رسن بندھوا کے
تا حشر رہے گاماتم اب تشنہ لبوں کا گھر گھر
بے کفن تھا ہر ایک لاشہ ہر بی بی تھی بے چادر
رویے گی ساری خدائ ہر ظلم پے اشک بہا کے
لو شام چلی میں بابا شنو میں رسن بندھوا کے
پردرد بیانی نوحہ مہدی نے پڑھا جو بابا
گریہ تھا آھو فگاں تھی ہر قلب کا وعالم تھا
سب اہلے عزا نے ماتم اس درجہ کیا ہے آ کے
لو شام چلی میں بابا شنو میں رسن بندھوا کے
اے شہیدان کربوبالا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
کیوں اداسی سی چّھانے لگی
گھر کی رونق بھی جانے لگی
ہے فضاؤں میں یہ مرثیہ الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
ہاے جی بھر کے رو نہ سکے
کیوں نہ روتے ہوئے مر گئے
اٹھ گیا ہاے فرش عزا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
سال بھر کے لیں رہ گئے
اپنے سینوں میں حصرت لئے
پھر سے آےنگی گھر سیدہ الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
بھول سکتے نہیں شہ کا غم
ہاتھ سینوں پے آنکھیں ہیں نم
ہاے کیسے کہیں ہم بھلا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
چھ مہینے کے اصغر کا غم
شہ کی دختر پا ظلم ستم
کیسے مدار نے دیکھا کیا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
لٹ گیا سیدہ کا چمن
اکبر و قاسم گل بدن
دونو زینب کے ماہے لقا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
سارے انصار مارے گئے
عصر عاشور تنہا رہے
تشنہ لیب وارث امبیا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
شھ کی خدمات میں آنسوں لئے
یہ عزادار روتے ہوئے
پرسا دیتے ہیں عبّاس کا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
زینب خستہ تن الودا
ایک شب کی دلہن الودا
اے اسیران کربوبالا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
اے ظہیر اس طرح غم کرو
آج جی بھر کے ماتم کرو
پھر یہ موقع ملا نہ ملا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
دل میں غازی کے حصرت رہی
مشک تیروں سے چھلنی ہوئی
رن سے آقا کو دی یہ صدا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
بے کفن رن میں لاش رہے
ماں پھپی بہنوں کے سر کھلے
ایک بیمار کہتا رہا الودا الودا الودا
پرثا دیتے ہیں اہلے عزا الودا الودا الودا
کہ رہا ہے خدا غدیر کے بعد
دین کامل ہوا غدیر کے بعد
ہم کو مولا ملا غدیر کے بعد
دل کسی کا جلا غدیر کے بعد
کیا کہوں کیا ہوا غدیر کے بعد
تھا الگ ماجرا غدیر کے بعد
منھ سے بخ خن جو کھ کے آیا تھا
ہالے نہ ساز تھا غدیر کے بعد
رشک صحرا تھی گھر کی ویرانی
منھ تھا لٹکا ہوا غدیر کے بعد
چشم گریاں تھی چاک تھا دامن
ہولیا بگڑا ہوا غدیر کے بعد
پوچھا بیگم نے کے ہوا کیا ہے
شیخ جی کو بھلا غدیر کے بعد
بولے جھنجھلا کے یہ بڑے صاحب
دل ہے جھلسا ہوا غدیر کے بعد
مرتضیٰ کو نبی کے کہنے پر
میں نے مولا کہا غدیر کے بعد
کب ہوا اور کہاں ہوا یہ سب
بولے بے ساختہ غدیر کے بعد
شیخ جی کا یہ حال ہونا ظہیر
این لازم ہی تھا غدیر کے بعد
دل کے ارمان رہ گئے ان کے
اب تو بس ہاتھ ملتے رہتے ہیں
جب سے اے شیخ جی خم سے
دن میں تارے دکھایی دیتے ہیں
صحرا میں دھوپ ہونا تو فطرت کی بات ہے
فطرت کہوں یا یوں کہوں قدرت کی بات ہے
قدرت یہ چاہتی تھی کے خم میں روکیں سبھی
ہر چند حاجیوں پے یہ زحمت کی بات ہے
زحمت بڑھی جو کھ کے کجاوے لئے گئے
خطبہ نبی کا ہوگا فصاحت کی بات ہے
سبکے کجاوے لے کے جو ممبر بنا دیا
حاجی سمجھ رہے تھے ہدایت کی بات ہے
من کنتو کہ رہے تھے علی کو رسول حق
ممبر پے اب علی کی ولایت کی بات ہے
ممبر پا ہیں نبی تو ہیں ہاتھوں پا مرتضیٰ
ھوٹوں پا بھی نبی کے ولایت کی بات ہے
اعلان کی تپش سے جلے جا رہے تھے لوگ
بغزے علی ولی ہے علامت کی بات ہے
کچھ لوگ تھے کے جن پی تپش کا اثر نہ تھا
علفت کی بات ہے یہ مودّت کی بات ہے
ہم تو علی کو مانے گے جیسا نبی کہیں
یہ اپنے اپنے خون میں طہارت کی بات ہے
اعلان بھول جانا حماقت ہے شیخ جی
بخخن جو کہ کے بھولے ہو حیرت کی بات ہے
لکھو پڑھو سنو بھی سناؤ غدیر خم
تم پر ظہیر انکی عنایت کی بات ہے