Fikr main jiski inqlaab nahi

فکر میں جس کی انقلاب نہیں
ہان و ہی شخص کامیاب نہیں

معالے دنیا کی فکر غالب ہے
آخرت کا کوئی حساب نہیں

آکے محفل میں جو بھی بیٹھ گیا
اس سے پھر وقت کا حساب نہیں

خون نہ حق بہا گیا ہے یزید
آل کو اسکی ارتکاب نہیں

ایک بیٹے نے خواب میں دیکھا
میرے والد پا کچھ عذاب نہیں

جس کو آییوب نے سلام کیا
صبر میں شاہ کا ہم رکاب نہیں

یککو تنہا کھڈے ہیں رن میں حسین
پھر بھی چہرے پا اضطراب نہیں

جسکو پینے سے حر کو ہوش آیا
عشق کا جام تھا شراب نہیں

لے کے دوزق سے خلد آ ہی گیی
حر کی قسمت کا بھی جواب نہیں

غاصب حققے فاطمہ کے لیں
سبض گمبد میں بھی ثواب نہیں

پروے رہبرے امام بنو
اس سے پیارا ظہیر خاب نہیں

Be khata jurm ka iqraar nahi kar sakta

اپنے اتوار چمکدار نہیں کر سکتا
بعد نسب مدحت سرکار نہیں کر سکتا

لاکھ کہتا رہے اب اے غیبت سے امام
بے نمازی کبھی دیدار نہیں کر سکتا


بے خطا جرم کا اقرار نہیں کر سکتا
گھر جلا ہے کوئی انکار نہیں کر سکتا

لاکھ لیٹا کرے گمبد میں کوئی جا کے ظہیر
رب کو راضی کبھی مککار نہیں کر سکتا


بے خطا جرم کا اقرار نہیں کر سکتا
بد نسب مدحت سرکار نہیں کر سکتا

لاکھ کہتا رہے اب اے غیبت سے امام
بے نمازی کبھی دیدار نہیں کر سکتا

حوصلہ میثم تممار سے جو لے نا سکے
مدھے حیدر و سرے دار نہیں کر سکتا

ایک حیوان کی رطوبت ہی تیری قسمت ہے
تو وفا ان سے بھی غدّار نہیں کر سکتا

فرش مجلس پا جو آتا ہے پرایا بھی ظہیر
شاہ کے قاتل سے کبھی پیار نہیں کر سکتا