گلوں میں رنگ فضا میں خمار باقی ہے
الی کے ذکر سے لیلو نہار باقی ہے
منافقین کو اتنا پیام دے دینا
الی کا شیر سہی ذولفقار باقی ہے
ہمارے ملک میں امنو اماں رہے قیام
فقط اسی کا ہمیں انتظار باقی ہے
نبی کی بیٹی ہو مدار ہو یا کے ہو زوجہ
ہر اک سماج میں انکا وقار باقی ہے
آیاں یہ تیرے عمل نے کیا ہے سردانا
یزید مر گیا ایک رشتےدار باقی ہے
جمہوریت کو بھی بدنام کر گیا روہت
نہ جانے ملک کو کیا انتظار باقی ہے
تیری زبان کی یہ گندگی بتاتی ہے
لہو میں تری بہت خلفشار باقی ہے