Kankar se kalma padhvao – phir khna hum jaise the

کنکر سے کلمہ پرھواؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے
ڈوبتے سورج کو لوٹاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

چاند کے دو کر کے تو دکھاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے
تارے کو در پر ہی بلاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

تم بھی ذرا معراج کو جاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے
جاؤ نمازیں لے کر آؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

زہرہ جیسی بیٹی لاؤ پھر کھانا ہم جیسے تھے
حیدر سا داماد بھی لاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

اپنی حفاظت شتانوں سے کرنے کی خاطر تم بھی
مکڑی سے جلا بنواؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

پیشانی پر داغ بنانا کوئی مشکل کام نہای
نقشے قدم پتھر پا بناؤ پھر کھانا ہم جیسے تھے

سرورے دین کی بات بڑی ہے چھوڑ ان سب باتوں کو
انکے غلامو سے بن جاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

ظالم کے دربار میں جاکر حق گوئی آسان ہے کیا
عشقے علی میں دار پا جاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

گلوں میں رنگ فضا میں خمار باقی ہے

گلوں میں رنگ فضا میں خمار باقی ہے
الی کے ذکر سے لیلو نہار باقی ہے

منافقین کو اتنا پیام دے دینا
الی کا شیر سہی ذولفقار باقی ہے

ہمارے ملک میں امنو اماں رہے قیام
فقط اسی کا ہمیں انتظار باقی ہے

نبی کی بیٹی ہو مدار ہو یا کے ہو زوجہ
ہر اک سماج میں انکا وقار باقی ہے

آیاں یہ تیرے عمل نے کیا ہے سردانا
یزید مر گیا ایک رشتےدار باقی ہے

جمہوریت کو بھی بدنام کر گیا روہت
نہ جانے ملک کو کیا انتظار باقی ہے

تیری زبان کی یہ گندگی بتاتی ہے
لہو میں تری بہت خلفشار باقی ہے

سورہ کوثر کی یہ تفسیر ہیں

جوں کی وحب کی یا حر کی یہ تصویر ہیں
زکزکی اور نمر کے مانند جتنے ویر ہیں

تم سے نہ مٹ پےنجے اے الے سعود
سورہ کوثر کی یہ تفسیر ہیں


حل عطا یہ ہیں کہیں تو کہیں تتھیر ہیں
انکے گھر کے سارے بچے دین کی توکیر ہیں

پاروں میں ہیں سوروہ میں ہیں اور آیت میں
جضے قرآن ہیں یہ ہی قرآن کی تنویر ہیں


سب علی کی بیٹیاں ہاملے تطہیر ہیں
ہمسرے ابباس ہیں اور شاہ کی ہمشیر ہیں

تم سمجھتے ہو کے قیدی ہو گیئں سیدانیاں
آزمو استقلال میں یہ شبّر و شبیر ہیں

آل کو پیارے نبی کی قید کرنے والے آج
لعنتوں کا طوق پہنے دار بدر بپیر ہیں

حیدری لہجے سے ظالم کو کرینگی بے نقاب
اے یزیدی بے حیا یہ زینبے دلگیر ہیں

کربلا کی جنگ کا نقشہ پلٹنے کے لیں
حرملہ تیرے مقابل اصغرے بشیر ہیں