ذہن دل کو سجا لیا جائے
جشن باقر منا لیا جائے
گھر میں محفل سجا کے باقر کی
امبیا کو بلا لیا جائے
گو کے کمسن تھے بولے بابا سے
تختے شامی ہلا دیا جائے
آپ ہی اسکا فیصلہ کر لیں
خلد میں حر یا حرملہ جائے
ایک مسکان سے سرے میداں
قسرے بیعت گرا دیا جائے
او چل کر خرید لیں جنّت
شاہ پا آنسو بہا لیا جائے
جیسے چاهتا ہے وقت کا مہدی
بس اسی طور سے جیا جائے
دل سے اطراف ماصیت کر کے
خود کو بھی حر بنا لیا جائے
عرش تک جو سنائی دینے لگے
ایسا نارا لگا لیا جائے
مدح باقر ظہیر کرنی ہے
لفظ ہر ایک سجا لیا جائے