Aao chalen imam Hasan ki janab main

ہر خشکو تر کا علم ہے رب کی کتاب میں
کوئی کتاب ہی نہیں اسکے جواب میں

نور خدا کے ساتھ میں علم کتاب بھی
ایک جیسا ہے رسول میں اور بوتراب میں

دنیا میں مومنین کی عزت حسن سے ہے
او چلیں امام حسن کی جناب میں

در در بھٹک رہی جو نسل غریب شام
ہوگی گرفت سبکی خدا کے تانب میں

ایگا جب تو عدل کا پرچم لئے ہوئے
ہے جا نشیں حسن کا ابھی بھی حجاب میں

چھن کر ردا فاطمہ زہرہ سے آئ ہے
ہے لطف دو جہاں کا ولا کی شراب میں

مرحب کا بال بھی کوئی بیکا نا کر سکے
اے تھے شیخ لڑنے بدی أبوتاب میں

زہرہ کا گھر جلا دیا لیٹے مزار میں
یا رب کمی نہ ہو کبھی انپے عذاب میں

کتنا عظیم لطف ہے حق میں تیرے ظہیر
تم مدح کر رہے ہو حسن کی جناب میں

Umme Farwa ka Ladla Qasim

دلبر جانے مجتبیٰ قاسم
اممۓ فروہ کا لادلہ قاسم

تیری دادی ہیں فاطمہ زہرہ
اور دادا ہیں مرتضیٰ قاسم

شیر دل پائی ہے پھوپی تم نے
اورعبّاس سا چچا قاسم

ہو با ہو حسن میں حسن ہو تم
کس قدر تم ہو دل روبہ قاسم

جز تیرے ہے کوئی جو بتلاۓ
موت کا رن میں ذائقہ قاسم

مارے جب چار بیٹے ارزق کے
بولے عبّاس مرحبا قاسم

جب کیا زیر ارزق شامی
ہو گئے تم بھی لا فتا قاسم

بھاگو بھاگو کا شور تھا رن میں
غل ہوا دیکھی آ گیا قاسم

ایک ہلچل تھی فوج میں مہدی
دیکھ کر تیرا حوصلہ قاسم

مہدی جب خاک کا بچھونا ملے
ورد ہو لب پے نام کا قاسم

Had hai Zehra ne kaha mere bahan hai Fizza

یزید والوں کو یہ ہی تو جلن ہے فضزہ
تو ظلمتوں کے اندھیروں میں کرن ہے فضزہ

تو ہم کلام نبوّت ہے ہم کلام بتول
یہ ہی سبب ہے کے تو پاک ظہن ہے فضزہ

تو پالتی ہے امامت رسول کے گھر میں
یہ منفرد تیرا دنیا میں چلن ہے فضزہ

اب اس سے بڑھ کے فضیلت بیان کیسے ہو
حد ہے زہرہ نے کہا میری بہن ہے فضزہ

پکا کے روٹیاں دیتی ہے عرش والوں کو
ملک یہ کہتے ہیں انمول رَتَن ہے فضزہ

الٹ کے رکھ دیا دربار شام کو جسنے
یہ الگ بات کے پابندے رسن ہے فضزہ

جہاں پے چار اماموں نے پرورش پائی
عقیدتوں کا و شاداب چمن ہے فضزہ

ہے تجھ پا خاص عنایات یہ سییدہ کی زہیر
سجا ہوا تیرے لیب پر جو سخن ہے فضزہ

Asghar ke zikr ki hai mahak aasman tak

ظالم بھی اور ظلم بھی تیرو کمان تک
ہمّت جٹا کے آے کبھی بے زبان تک

اصغر نے اس طرح سے بچایا ہے دینے حق
بعت تو کیا قدم کا نا پایا نشان تک

جشن ولا تو ہمنے سجایا تھا فرش پر
اصغر کے ذکر کی ہے مہک آسمان تک

اس طرح سے شکستہ کیا ہے صغیر نے
پھر ہاتھ حرملہ کا نا پہچا کمان تک

بس مسکرا کے جنگ کا نقشہ پالت دیا
بعت تو کیا قدم کا نا پایا نشان تک

فرشے عزا نے باقی رکھا ہے ہمیں ظہیر
ہوتا ہے انکا ذکر حد لا مکان تک

Har Waqt Madad Karne ko Tayyar Ali Hain

مولا جہاں دین کے سردارعلی ہیں
والیوں کے ولی صفدر جررار علی ہیں

ہو بدر احد خندق خیبر یا نہروان
جس سے ڈرا ہے ظلم و للکارعلی ہیں

بستر پا یہ لیٹیں تو نبوعت کو بچا لیں
سو جایں تو قدرت کے خریدارعلی ہیں

اک وارمیں دوکرتے ہیں اور دونو برابر
ہو جنگ کا میدان تو فنکارعلی ہیں

بخخن جو کہا تھا اسے کیوں بھول گئے ہو
ایسا نا کرو شیخ جی سردارعلی ہیں

حق مار کے بن بیٹھے ہوامّت کے خلیفہ
بے فاصلہ مسند پا ہوں حقدارعلی ہیں

کہتی ہے تو کہتی رہے دنیا رضیاللہ
بیزارجو زہرا ہیں تو بیزارعلی ہیں

ہمکو نہ ڈرانہ کبھی اے گردش دوران
ہر وقت مدد کرنے کو تییارعلی ہیں

عبّاس نظر آتے ہیں سففین میں حیدر
یا شکل میں عبّاس کی تکرارعلی ہیں

مشل کشا کا روضہ ہے مشل نہیں ظہیر
کس روض بلا لیں تجھے مختارعلی ہیں

Jashn-e-Baqir Mana Liya Jaye

ذہن دل کو سجا لیا جائے
جشن باقر منا لیا جائے

گھر میں محفل سجا کے باقر کی
امبیا کو بلا لیا جائے

گو کے کمسن تھے بولے بابا سے
تختے شامی ہلا دیا جائے

آپ ہی اسکا فیصلہ کر لیں
خلد میں حر یا حرملہ جائے

ایک مسکان سے سرے میداں
قسرے بیعت گرا دیا جائے

او چل کر خرید لیں جنّت
شاہ پا آنسو بہا لیا جائے

جیسے چاهتا ہے وقت کا مہدی
بس اسی طور سے جیا جائے

دل سے اطراف ماصیت کر کے
خود کو بھی حر بنا لیا جائے

عرش تک جو سنائی دینے لگے
ایسا نارا لگا لیا جائے

مدح باقر ظہیر کرنی ہے
لفظ ہر ایک سجا لیا جائے

Qalb-e-Paighambar pa nazil surah e kausar hua

متقی و بن گیا کچھ اور اونچا سر ہوا
مرتبہ اسکو ملا جو پروے رہبر ہوا

تینوں آیت لے کے آیئں آمد زہرا کا نور
قلب پیغمبر پہ نازل سورہ کوثر ہوا

آج بھی قیام ہے زہرا کا پسر مہدی دین
کھ رہا تھا جو نبی کو خود ہی و ابتر ہوا

ڈونڈھے سے ملتا نہیں ہے نام کا کوئی یزید
اور حسین ابنے علی کا تذکرہ گھر گھر ہوا

عاشق زہرہ کی خاطرتھا یہ سارا اہتمام
ورنہ پھر صحرا میں کیوں یہ انتظار حر ہوا

لے کے نیزا جس گھڈی پہچا و زہرا کا پسر
دیکھ کر آتا جری کو نہر پر محشر ہوا

کھلبلی تھی اس قدر کے کچھ نہ آتا تھا نظر
کیسا گھوڈا کیسا نیزہ سب ادھر کا ادھر ہوا

ایک نیزے نے ہے بدلہ جانے کتنو کا نصیب
کوئی ریسر بن گیا تو کوئی چھو منتر ہوا

منقبت بنتے نبی کی جب بھی لکھتا ہے ظہیر
لفظ سارے کھل اٹھے ہر شیر ہی گوہر ہوا