اندھیرا ظلمتوں کا چیر دے و آفتاب اے
لگاؤ نارعے حیدر زمیں پر انقلاب اے
کسی زوھرا جبیں کے آنے تییاریاں محسوس ہوتی ہیں
زمیں پر عرش سے چلکر فرشتے بے حساب اے
ہمارا فرض ہے انکو سبھھی ملکر یہ تحفہ دیں
دورود انکو یہاں بھیجیں وہاں انکو گلاب اے
مہک اٹھے زمانہ پھر سے حیدر کی حکومت ہو
گُل نرجس جو کھل اٹھے گلستان پر شباب اے
وضو کر کے عریضہ میں فقط اتنی دعا لکھنا
قضا آنے پھلے ہی مجھے انکا جواب اے
عریضہ بھیجکر مینے دعا یہ رب سے مانگی ہے
کروں یہ نوکری تب بھی کے جب روزے حساب اے
خدا ہم سبکو میثم کی طرح موجز بیان کر دے
زباں گر کاٹ دے ظالم تو محشر تک ثواب اے
اندھیرا مری مرقد میں کبھی بھی ہو یہ نہ ممکن
ادھر کنبے نے منھ موڈا ادھر و بوتراب اے
سرے محشر ظہیر اپنے لیں بس اتنا ہی مانگو
لکھا ہو نام تیرا بھی جو بخشش کی کتاب اے