اپنے اتوار چمکدار نہیں کر سکتا
بعد نسب مدحت سرکار نہیں کر سکتا
لاکھ کہتا رہے اب اے غیبت سے امام
بے نمازی کبھی دیدار نہیں کر سکتا
بے خطا جرم کا اقرار نہیں کر سکتا
گھر جلا ہے کوئی انکار نہیں کر سکتا
لاکھ لیٹا کرے گمبد میں کوئی جا کے ظہیر
رب کو راضی کبھی مککار نہیں کر سکتا
بے خطا جرم کا اقرار نہیں کر سکتا
بد نسب مدحت سرکار نہیں کر سکتا
لاکھ کہتا رہے اب اے غیبت سے امام
بے نمازی کبھی دیدار نہیں کر سکتا
حوصلہ میثم تممار سے جو لے نا سکے
مدھے حیدر و سرے دار نہیں کر سکتا
ایک حیوان کی رطوبت ہی تیری قسمت ہے
تو وفا ان سے بھی غدّار نہیں کر سکتا
فرش مجلس پا جو آتا ہے پرایا بھی ظہیر
شاہ کے قاتل سے کبھی پیار نہیں کر سکتا