علی کے بغض میں جسکو بخار آج بھی ہے
سقیفہ چھائی ہے اس پر خمار آج بھی ہے
قدیمی آپکی نفرت ہے یہ دکھاتا ہے
نبی کی بیٹی کا ٹوٹا مزار آج بھی ہے
ہے ال اجل کی صدایں عمل میں کچھ بھی نہیں
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
نہ حرملہ ہی رہا اور نہ تیر ہے باقی
ہر ایک زباں پر مگر شیخوار آج بھی ہے
بتا رہیں ہیں بھتر یہ دھڑکنے دل کی
ہر ایک سانس پے شاہ کا ادھار آج بھی ہے
سلیکا مانگنے والے کا دیکھا جاتا ہے
علی کی طرح جو دے دے قطار آج بھی ہے
منفقین کو اتنا پیام دے دو ظہیر
علی کا شیر شہ ذولفقار آج بھی ہے