Kisi Nazar ko Tera Intezaar Aaj bhi hai

علی کے بغض میں جسکو بخار آج بھی ہے
سقیفہ چھائی ہے اس پر خمار آج بھی ہے

قدیمی آپکی نفرت ہے یہ دکھاتا ہے
نبی کی بیٹی کا ٹوٹا مزار آج بھی ہے

ہے ال اجل کی صدایں عمل میں کچھ بھی نہیں
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے

نہ حرملہ ہی رہا اور نہ تیر ہے باقی
ہر ایک زباں پر مگر شیخوار آج بھی ہے

بتا رہیں ہیں بھتر یہ دھڑکنے دل کی
ہر ایک سانس پے شاہ کا ادھار آج بھی ہے

سلیکا مانگنے والے کا دیکھا جاتا ہے
علی کی طرح جو دے دے قطار آج بھی ہے

منفقین کو اتنا پیام دے دو ظہیر
علی کا شیر شہ ذولفقار آج بھی ہے

Hai Nabze Kayenaat pe Qabza Imam ka

مککہ امام کا ہے مدینہ امام کا
ہے منتظر یہ سارا زمانہ امام کا

پر نور اس قدر ہے سراپا امام کا
اغیار کی صفوں میں ہے چرچا امام کا

عیسیٰ بھی انتظار میں آکھیں بچھاے ہیں
پانی پی کب بچھے گا مسللہ امام کا

جشن ولاے مہدی دوران ہے دوستوں
لینے ملک بھی آے ہیں صدقہ امام کا

اوصاف کردگار کا پیکر امام ہیں
ہے نبزے کینات پا قبضہ امام کا

موہلت بھی بھا گنے کی ملیگی نہ قبر سے
مٹتی کو جب ملیگا اشارہ امام کا

تلوار بے نیام کفن ہو میرا لباس
گر میرے بعد اے زمانہ امام کا

کہتے ہو ال اجل بھی نمازوں سے دور ہو
قبل ظہور ہم سے ہے شکوہ امام کا

جسکو پسند بھائی کا چہرہ نہیں ظہیر
کیا خاک دیکھ پایےگا چہرہ امام کا