Jashn-e-wafa ki dhoom hai sare jahan main

تارے دکھایی دیتے ہیں جو آسمان میں
در اصل سارے شیر ہیں غازی کی شان میں

تاریخ ساز شب ہے یہ دو چند ساتھ ہیں
اک ہے علی کے گھر میں اور ایک آسمان میں

کل امبیہ بھی فرشے مسرّت پا آ گئے
جشنے وفا کی دھوم ہے سارے جہان میں

جاھو حشم علی کا ہی سارا لئے ہوئے
بھیجا علی کو حق نے علی کے مکان میں

فرشے عزا حسین کا جس دن سے ہے بچھا
خوشبو مہک رہی ہیں ہمارے مکان میں

بے تیغ آکے نہر سے پانی و لے گیا
فوج یزید الجھی ہے وہمو گمان میں

گھر میں سجا کے محفل مدحت زہیر ہم
جنّت بناے بیٹھے ہیں اپنے مکان میں


مجھکو قصید پڑھنا ہے غازی کی شان میں
تاثیر اے خدا مجھے دے دے زبان میں

عبّاس توعلی کی دعا بھی ہیں شکل بھی
عبّاس جیسا کوئی کہیں ہے جہاں میں

بارہ امام جس میں ہو پیارے نبی کے ساتھ
آیا ہے یہ جری بھی اسی خاندان میں

لالے پڑے ہے جان کے فوجے یزید کو
کیا خط جری نے کھیچ دیا در میان میں

منکر علی کے سارے ہی دوزق میں جاے گیں
جنّت ملے بھی کیسے ادھوری اذان میں

کچھ حوصلہ جٹاؤ کے بے شیر سے لڑیں
باتیں ابھی یہ ہوتی تھیں تیرو کمان میں

جس طرح کربلا میں تھا تیروں کے درمیان
ہمنے علم نکالا اسی ان بان میں

غازی ہمیں بھی کربوبالا میں بلائے
مہدی دعایں کرتا ہے ہندوستان میں

Naam e Abbas Chamakta hai Alamdari main

نام عبّاس چمکتا ہے علمداری میں
شیر حیدر کا ہے سردار وفاداری میں

ھو با ھو انکو بنایا ہے خدا نے حیدر
عزم ہمّت میں شجاعت میں فداکاری میں

جسنے نو لاکھ کے لشکر کو نہ لشکر سمجھا
کوئی تاریخ نے دیکھا بھی ہے فن کاری میں

ایک خط خیچا ہے لشکر پا ہے ہیبت تاری
جایں اس پار کے اس پار ہیں دشواری میں

جسکے بس ایک اشارے سے رکا ہو لشکر
نہر سے خیمے اٹھا لیا و خودداری میں

منکرعظمت زہرا پا ہو جم کر لعنت
ایک ذرّا بھی نہ کم ہو کبھی بیزاری میں

بزم احمد سے اٹھاۓ گئے جنکے اجداد
فتوے بدعت کے دیا کرتے ہیں مککاری میں

ہے مسلمانو پہ احسان کے قیدی ہوکر
یہ بچا لاۓ شریعت کو بھی بیماری میں

التجا اتنی سی ہے باب حوائج سے ظہیر
عمر کٹ جائے میری شھ کی عزاداری میں

Jang Abbas se karne ko na lashkar nikla

جب بھی غازی کا علم گھر سے سجا کر نکلا
پھر کوئی بانے شر گھر سے نہ بہار نکلا

غرور لشکرے باطل کا ڈبویا جسنے
علقمہ چھین کے و مشک بھی بھر کر نکلا

ثانی حیدر کررار ہے میرا غازی
کیا کوئی ثانی عبّاس دلاور نکلا

کیسی ہیبت ہے کے اس پار جا نہیں سکتے
جری کا خط بھی تو سرحد کے برابر نکلا

تماچہ پانی کے رخسار پا مارا ایسے
پیاسا دریا میں گیا پیاسا ہی بہار نکلا

چلی جو تیغ جاری کی تو پھر سر میداں
جنگ عبّاس سے کرنے کو نہ لشکر نکلا

شجاعتوں نے بھی بوسے لئے بلین لیں
پسر علی کا جو صفین کو سر کر نکلا

عقیدتوں کو جو کاغذ پا مینے لکھا ظہیر
جری کی شان میں ہر لفظ معتبر نکلا