مالکے کونو مکاں ہیں فاطمہ

مالکے کونو مکاں ہیں فاطمہ
احمدے مرسل کی جاں ہیں فاطمہ

کس طرح اوصاف انکے ہو بیان
مالکے جنّت کی ماں ہیں فاطمہ


جب درے بنتے نبی سے سلسلے ہو جائے گیں
خلد میں جانے کے چودہ راستے ہو جائے گیں

خواب میں بھی عظمتوں نے یہ کبھی سوچا نہ تھا
فاطمہ کو دیکھ کر آقا کھرے ہو جائے گیں


الله الله منزلت اور یہ مقامے فاطمہ
خد رسولاللہ کرتے اهترامے فاطمہ

سبسے بڑھ کر ہے جو زیور و حیا اور شرم ہے
عورتوں کے واسطے ہے یہ پیامے فاطمہ

اک دن خود اک دن فزا سے لیتی ہیں یہ کام
تھا حقو انصاف پر قیام نظامے فاطمہ

انکی زاتے پاک کی تسبیح دل پڑھنے لگا
آ گیا جب بھی زبان پر میری نامے فاطمہ

کربلا کے واسطے پلے تھے زینب اور حسین
دین بچانے ک لئے تھا انتظامے فاطمہ

فاطمہ کی منقبت ہی صرف مت کہنا ظہیر
دل سے رہنا عمر بھر تو غلامے فاطمہ

Kankar se kalma padhvao – phir khna hum jaise the

کنکر سے کلمہ پرھواؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے
ڈوبتے سورج کو لوٹاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

چاند کے دو کر کے تو دکھاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے
تارے کو در پر ہی بلاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

تم بھی ذرا معراج کو جاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے
جاؤ نمازیں لے کر آؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

زہرہ جیسی بیٹی لاؤ پھر کھانا ہم جیسے تھے
حیدر سا داماد بھی لاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

اپنی حفاظت شتانوں سے کرنے کی خاطر تم بھی
مکڑی سے جلا بنواؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

پیشانی پر داغ بنانا کوئی مشکل کام نہای
نقشے قدم پتھر پا بناؤ پھر کھانا ہم جیسے تھے

سرورے دین کی بات بڑی ہے چھوڑ ان سب باتوں کو
انکے غلامو سے بن جاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

ظالم کے دربار میں جاکر حق گوئی آسان ہے کیا
عشقے علی میں دار پا جاؤ پھر کہنا ہم جیسے تھے

گلوں میں رنگ فضا میں خمار باقی ہے

گلوں میں رنگ فضا میں خمار باقی ہے
الی کے ذکر سے لیلو نہار باقی ہے

منافقین کو اتنا پیام دے دینا
الی کا شیر سہی ذولفقار باقی ہے

ہمارے ملک میں امنو اماں رہے قیام
فقط اسی کا ہمیں انتظار باقی ہے

نبی کی بیٹی ہو مدار ہو یا کے ہو زوجہ
ہر اک سماج میں انکا وقار باقی ہے

آیاں یہ تیرے عمل نے کیا ہے سردانا
یزید مر گیا ایک رشتےدار باقی ہے

جمہوریت کو بھی بدنام کر گیا روہت
نہ جانے ملک کو کیا انتظار باقی ہے

تیری زبان کی یہ گندگی بتاتی ہے
لہو میں تری بہت خلفشار باقی ہے

صلح شبر کربلا کی جنگ کا آغاز ہے

مجھ پا یہ انکی عطا جو فکر کی پرواز ہے
منقبت ابنے علی کی لکھنا اک عزاز ہے

اقتتامے جنگ کرنے ایگا نرجس کا لال
صلح شبر کربلا کی جنگ کا آغاز ہے

رایگا نہ جانے دینگے تجھ کو اے دینے مبین
نوکے نیزہ سے سرے سرور کی یہ آواز ہے

ایک شب کی ڈھیل دینا یہ بتاتا ہے ظہیر
آنے والا شاہ کی خدمات میں کوئی جانباز ہے

نعرے خدا نبی ہیں حسن ہیں نبی کا نور

حمدو سنا خدا کی ناتے نبی کا نور
روشن ہوئی ہیں محفلیں آیا علی کا نور

ہے اس طرہ خدا نے سجایا خود ہی کا نور
دن کو دیا نبی کا تو شب کو ولی کا نور

الله نے سہولتے آدم کے واسطے
پیدا کیا تو پھلے دکھایا جلی کا نور

خیرننسا کا نور ہے اور مصطفی کا نور
اسلام کے چمن میں ہے سارا انہیں کا نور

آدم کا نور عرش سے آیا زمین پر
جو عرش پر بلایا جایا ہے نبی کا نور

کوثر کا نور فاطمہ سے ہے ابھی تلک
غیبت میں خود خدا نے رکھا ہے اسی کا نور

اک نور ہی کے ٹکڑے ہیں زیرے کیسا ظہیر
نعرے خدا نبی ہیں حسن ہیں نبی کا نور

سورہ کوثر کی یہ تفسیر ہیں

جوں کی وحب کی یا حر کی یہ تصویر ہیں
زکزکی اور نمر کے مانند جتنے ویر ہیں

تم سے نہ مٹ پےنجے اے الے سعود
سورہ کوثر کی یہ تفسیر ہیں


حل عطا یہ ہیں کہیں تو کہیں تتھیر ہیں
انکے گھر کے سارے بچے دین کی توکیر ہیں

پاروں میں ہیں سوروہ میں ہیں اور آیت میں
جضے قرآن ہیں یہ ہی قرآن کی تنویر ہیں


سب علی کی بیٹیاں ہاملے تطہیر ہیں
ہمسرے ابباس ہیں اور شاہ کی ہمشیر ہیں

تم سمجھتے ہو کے قیدی ہو گیئں سیدانیاں
آزمو استقلال میں یہ شبّر و شبیر ہیں

آل کو پیارے نبی کی قید کرنے والے آج
لعنتوں کا طوق پہنے دار بدر بپیر ہیں

حیدری لہجے سے ظالم کو کرینگی بے نقاب
اے یزیدی بے حیا یہ زینبے دلگیر ہیں

کربلا کی جنگ کا نقشہ پلٹنے کے لیں
حرملہ تیرے مقابل اصغرے بشیر ہیں