Keh raha hai KHUDA Ghadeer ke baad

کہ رہا ہے خدا غدیر کے بعد
دین کامل ہوا غدیر کے بعد

ہم کو مولا ملا غدیر کے بعد
دل کسی کا جلا غدیر کے بعد

کیا کہوں کیا ہوا غدیر کے بعد
تھا الگ ماجرا غدیر کے بعد

منھ سے بخ خن جو کھ کے آیا تھا
ہالے نہ ساز تھا غدیر کے بعد

رشک صحرا تھی گھر کی ویرانی
منھ تھا لٹکا ہوا غدیر کے بعد

چشم گریاں تھی چاک تھا دامن
ہولیا بگڑا ہوا غدیر کے بعد

پوچھا بیگم نے کے ہوا کیا ہے
شیخ جی کو بھلا غدیر کے بعد

بولے جھنجھلا کے یہ بڑے صاحب
دل ہے جھلسا ہوا غدیر کے بعد

مرتضیٰ کو نبی کے کہنے پر
میں نے مولا کہا غدیر کے بعد

کب ہوا اور کہاں ہوا یہ سب
بولے بے ساختہ غدیر کے بعد

شیخ جی کا یہ حال ہونا ظہیر
این لازم ہی تھا غدیر کے بعد

Haji Samajh Rahe The Hidayat Ki Baat Hai

صحرا میں دھوپ ہونا تو فطرت کی بات ہے
فطرت کہوں یا یوں کہوں قدرت کی بات ہے

قدرت یہ چاہتی تھی کے خم میں روکیں سبھی
ہر چند حاجیوں پے یہ زحمت کی بات ہے

زحمت بڑھی جو کھ کے کجاوے لئے گئے
خطبہ نبی کا ہوگا فصاحت کی بات ہے

سبکے کجاوے لے کے جو ممبر بنا دیا
حاجی سمجھ رہے تھے ہدایت کی بات ہے

من کنتو کہ رہے تھے علی کو رسول حق
ممبر پے اب علی کی ولایت کی بات ہے

ممبر پا ہیں نبی تو ہیں ہاتھوں پا مرتضیٰ
ھوٹوں پا بھی نبی کے ولایت کی بات ہے

اعلان کی تپش سے جلے جا رہے تھے لوگ
بغزے علی ولی ہے علامت کی بات ہے

کچھ لوگ تھے کے جن پی تپش کا اثر نہ تھا
علفت کی بات ہے یہ مودّت کی بات ہے

ہم تو علی کو مانے گے جیسا نبی کہیں
یہ اپنے اپنے خون میں طہارت کی بات ہے

اعلان بھول جانا حماقت ہے شیخ جی
بخخن جو کہ کے بھولے ہو حیرت کی بات ہے

لکھو پڑھو سنو بھی سناؤ غدیر خم
تم پر ظہیر انکی عنایت کی بات ہے

Dugna Maza Hai Aaj Ghadeeri Sharaab Main

ہر منکر گدیر ہے یوں پچوتاب میں
مولا کے مانا ڈونڈھ رہا ہے کتاب میں

جیسا نبی کو مانا ہے ویسا ہی مانئے
ورنہ پڑے رہوگے مسلسل عذاب میں

چن کر رداے فاطمہ زہرہ سے آی ہے
دوگنا مزہ ہے آج غدیری شراب میں

مرحب کا بال بھی کوئی بیکا نہ کر سکے
اے تھے شیخ لڑنے بڑی أبوتاب میں

زہرہ کا گھر جلا کے جو مسند نشیں ہوا
لعنت کا طوق اسکے ایصالے ثواب میں

ایگا لیکے پرچم عبّاس و ظہیر
ایک جا نشیں علی کا ابھی ہے حجاب میں

Saja hai sara jahan aaj phir Ali ke liyen

سجایا ہے سارا جہاں آج پھرعلی کے لیں
فلک سے آ گئے تارے بھی روشنی کے لیں

رجب کی تیرا ہے کعبے میں آ رہے ہیں علی
حرم کی کھل اٹھی دیوار بھی خوشی کے لیں

ثوا حیدر کررارکیا جہاں والوں
حنسی ہے کعبے دیوار بھی کسی کے لیں

سقیفہ والوں تمہیں مرکے بھی نہ چین ملا
مرے تو لیٹے بھی جا کر برابری کے لیں

زمانہ ہمکو مٹا دے یہ غیر ممکن ہے
دعایں مانگی ہیں زہرا نے ماتمی کے لیں

تمام عزتیں اسکا طواف کیوں نہ کریں
ظہیر لفظ سجاے جو دل کشی کے لیں

Har Waqt Madad Karne ko Tayyar Ali Hain

مولا جہاں دین کے سردارعلی ہیں
والیوں کے ولی صفدر جررار علی ہیں

ہو بدر احد خندق خیبر یا نہروان
جس سے ڈرا ہے ظلم و للکارعلی ہیں

بستر پا یہ لیٹیں تو نبوعت کو بچا لیں
سو جایں تو قدرت کے خریدارعلی ہیں

اک وارمیں دوکرتے ہیں اور دونو برابر
ہو جنگ کا میدان تو فنکارعلی ہیں

بخخن جو کہا تھا اسے کیوں بھول گئے ہو
ایسا نا کرو شیخ جی سردارعلی ہیں

حق مار کے بن بیٹھے ہوامّت کے خلیفہ
بے فاصلہ مسند پا ہوں حقدارعلی ہیں

کہتی ہے تو کہتی رہے دنیا رضیاللہ
بیزارجو زہرا ہیں تو بیزارعلی ہیں

ہمکو نہ ڈرانہ کبھی اے گردش دوران
ہر وقت مدد کرنے کو تییارعلی ہیں

عبّاس نظر آتے ہیں سففین میں حیدر
یا شکل میں عبّاس کی تکرارعلی ہیں

مشل کشا کا روضہ ہے مشل نہیں ظہیر
کس روض بلا لیں تجھے مختارعلی ہیں