Too Kamsini main bhi tasveere Hasan hai Qasim

یزید والوں کے چہرے پا شکن ہے قاسم
توکمسنی میں بھی تصویرے حسن ہے قاسم

شہد سے میٹھا ہے حق پر شہید ہو جانا
جدا زمانے سے تیرا یہ سخن ہے قاسم

دکھانے آیا ہے جوہر جری کے حملوں کے
چچا سے سیکھے ہوئے جنگ کے فن ہے قاسم

نظر میں لاۓ گا کیسے عدو کے لشکر کو
جری کی جان ہے جس میں و بدن ہے قاسم

مٹا کے ارزق شامی کے چاروں بیٹوں کو
ستم پا ہے یہ ستم جلوا فگن ہے قاسم

صتم کو تارے جو سففین میں نظر اے
انہی کی کربوبالا میں تو کرن ہے قاسم

زہیر پیاس بھی احساس سے یہ کہنے لگی
کے اب تو لگنے لگی پیاس مگن ہے قاسم

Had hai Zehra ne kaha mere bahan hai Fizza

یزید والوں کو یہ ہی تو جلن ہے فضزہ
تو ظلمتوں کے اندھیروں میں کرن ہے فضزہ

تو ہم کلام نبوّت ہے ہم کلام بتول
یہ ہی سبب ہے کے تو پاک ظہن ہے فضزہ

تو پالتی ہے امامت رسول کے گھر میں
یہ منفرد تیرا دنیا میں چلن ہے فضزہ

اب اس سے بڑھ کے فضیلت بیان کیسے ہو
حد ہے زہرہ نے کہا میری بہن ہے فضزہ

پکا کے روٹیاں دیتی ہے عرش والوں کو
ملک یہ کہتے ہیں انمول رَتَن ہے فضزہ

الٹ کے رکھ دیا دربار شام کو جسنے
یہ الگ بات کے پابندے رسن ہے فضزہ

جہاں پے چار اماموں نے پرورش پائی
عقیدتوں کا و شاداب چمن ہے فضزہ

ہے تجھ پا خاص عنایات یہ سییدہ کی زہیر
سجا ہوا تیرے لیب پر جو سخن ہے فضزہ

Hai Nabze Kayenaat pe Qabza Imam ka

مککہ امام کا ہے مدینہ امام کا
ہے منتظر یہ سارا زمانہ امام کا

پر نور اس قدر ہے سراپا امام کا
اغیار کی صفوں میں ہے چرچا امام کا

عیسیٰ بھی انتظار میں آکھیں بچھاے ہیں
پانی پی کب بچھے گا مسللہ امام کا

جشن ولاے مہدی دوران ہے دوستوں
لینے ملک بھی آے ہیں صدقہ امام کا

اوصاف کردگار کا پیکر امام ہیں
ہے نبزے کینات پا قبضہ امام کا

موہلت بھی بھا گنے کی ملیگی نہ قبر سے
مٹتی کو جب ملیگا اشارہ امام کا

تلوار بے نیام کفن ہو میرا لباس
گر میرے بعد اے زمانہ امام کا

کہتے ہو ال اجل بھی نمازوں سے دور ہو
قبل ظہور ہم سے ہے شکوہ امام کا

جسکو پسند بھائی کا چہرہ نہیں ظہیر
کیا خاک دیکھ پایےگا چہرہ امام کا

Asghar ke zikr ki hai mahak aasman tak

ظالم بھی اور ظلم بھی تیرو کمان تک
ہمّت جٹا کے آے کبھی بے زبان تک

اصغر نے اس طرح سے بچایا ہے دینے حق
بعت تو کیا قدم کا نا پایا نشان تک

جشن ولا تو ہمنے سجایا تھا فرش پر
اصغر کے ذکر کی ہے مہک آسمان تک

اس طرح سے شکستہ کیا ہے صغیر نے
پھر ہاتھ حرملہ کا نا پہچا کمان تک

بس مسکرا کے جنگ کا نقشہ پالت دیا
بعت تو کیا قدم کا نا پایا نشان تک

فرشے عزا نے باقی رکھا ہے ہمیں ظہیر
ہوتا ہے انکا ذکر حد لا مکان تک

Saja hai sara jahan aaj phir Ali ke liyen

سجایا ہے سارا جہاں آج پھرعلی کے لیں
فلک سے آ گئے تارے بھی روشنی کے لیں

رجب کی تیرا ہے کعبے میں آ رہے ہیں علی
حرم کی کھل اٹھی دیوار بھی خوشی کے لیں

ثوا حیدر کررارکیا جہاں والوں
حنسی ہے کعبے دیوار بھی کسی کے لیں

سقیفہ والوں تمہیں مرکے بھی نہ چین ملا
مرے تو لیٹے بھی جا کر برابری کے لیں

زمانہ ہمکو مٹا دے یہ غیر ممکن ہے
دعایں مانگی ہیں زہرا نے ماتمی کے لیں

تمام عزتیں اسکا طواف کیوں نہ کریں
ظہیر لفظ سجاے جو دل کشی کے لیں

Har Waqt Madad Karne ko Tayyar Ali Hain

مولا جہاں دین کے سردارعلی ہیں
والیوں کے ولی صفدر جررار علی ہیں

ہو بدر احد خندق خیبر یا نہروان
جس سے ڈرا ہے ظلم و للکارعلی ہیں

بستر پا یہ لیٹیں تو نبوعت کو بچا لیں
سو جایں تو قدرت کے خریدارعلی ہیں

اک وارمیں دوکرتے ہیں اور دونو برابر
ہو جنگ کا میدان تو فنکارعلی ہیں

بخخن جو کہا تھا اسے کیوں بھول گئے ہو
ایسا نا کرو شیخ جی سردارعلی ہیں

حق مار کے بن بیٹھے ہوامّت کے خلیفہ
بے فاصلہ مسند پا ہوں حقدارعلی ہیں

کہتی ہے تو کہتی رہے دنیا رضیاللہ
بیزارجو زہرا ہیں تو بیزارعلی ہیں

ہمکو نہ ڈرانہ کبھی اے گردش دوران
ہر وقت مدد کرنے کو تییارعلی ہیں

عبّاس نظر آتے ہیں سففین میں حیدر
یا شکل میں عبّاس کی تکرارعلی ہیں

مشل کشا کا روضہ ہے مشل نہیں ظہیر
کس روض بلا لیں تجھے مختارعلی ہیں

Jis dam jahan main Noor-e-Taqi jalwagar hua

ظلمت کے اندھیروں کا اثر بے اثر ہوا
جس دم جہاں میں نور تقی جلواگر ہوا

تقوے کا نور ان سے ہی پھیلا جہاں میں
شاداب دو جہاں میں رضا کا شجر ہوا

الفت تقی سے جو بھی رکھے شاد بعد ہے
منکر تقی کا کوئی بھی ہو در با در ہوا

دسویں رجب کو آے ہیں مولا تقی ظہیر
دانشوروں میں جشن تقی رات بھر ہوا

Naam e Abbas Chamakta hai Alamdari main

نام عبّاس چمکتا ہے علمداری میں
شیر حیدر کا ہے سردار وفاداری میں

ھو با ھو انکو بنایا ہے خدا نے حیدر
عزم ہمّت میں شجاعت میں فداکاری میں

جسنے نو لاکھ کے لشکر کو نہ لشکر سمجھا
کوئی تاریخ نے دیکھا بھی ہے فن کاری میں

ایک خط خیچا ہے لشکر پا ہے ہیبت تاری
جایں اس پار کے اس پار ہیں دشواری میں

جسکے بس ایک اشارے سے رکا ہو لشکر
نہر سے خیمے اٹھا لیا و خودداری میں

منکرعظمت زہرا پا ہو جم کر لعنت
ایک ذرّا بھی نہ کم ہو کبھی بیزاری میں

بزم احمد سے اٹھاۓ گئے جنکے اجداد
فتوے بدعت کے دیا کرتے ہیں مککاری میں

ہے مسلمانو پہ احسان کے قیدی ہوکر
یہ بچا لاۓ شریعت کو بھی بیماری میں

التجا اتنی سی ہے باب حوائج سے ظہیر
عمر کٹ جائے میری شھ کی عزاداری میں