طر تازہ ابھی گلدان ابوطالب ہے
پرد غائب میں سلطان ابوطالب ہے
پہلی دوات سے ہی اسلام کے موحسن ہیں یہ
دین اسلام پا احسان ابوطالب ہے
طر تازہ ابھی گلدان ابوطالب ہے
پرد غائب میں سلطان ابوطالب ہے
پہلی دوات سے ہی اسلام کے موحسن ہیں یہ
دین اسلام پا احسان ابوطالب ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
ظالم نے روزدار کو ضربت لگائی ہے
انیسویں کی صبح کا منظر عجیب تھا
مولاۓ دو جہاں کا کنبہ غریب تھا
زخمی علی ہیں رونے کو ساری خدائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
ارکانے دینے حق کو گرایا نماز میں
گھر میں خدا کے خون بہایا نماز میں
جبریل نے سنانی یہ روکر سنائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
مسجد میں خون بھ گیا شیرے اله کا
محشر بپا ہے کوفے میں فریادو اہ کا
سر پر علی کے تیغ یہ کسنے چلائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
چہرا ہے سارا خون میں تر و محمّدا
روزے میں روزدار پا کیسا ستم کیا
مولا ے دو جہاں کو ضربت لگائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
بابا کو لیکے گھر میں جو آے حسن حسین
شورے فغاں تھا زینبو کلثوم کے تھے بین
خاکے یتیمی کسنے سروں پر اڈائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
سر کوعلی کے دیکھکے حیراں طبیب ہے
ہے زندگی محال شہادت قریب ہے
ضربت شخی نے زہر میں اپنی بجھائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
روتی رہیگی مسجدو محرراب اور ازاں
لو چل بسا زمانے سے مولاے دو جہاں
بچچے ہیں بے بسی ہے پدر کی جدائی ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
ماتم بپا ہے حیدرے کررر کا ظہیر
تابوت ہے یہ شیون کے سردار کا ظہیر
لینے کو پرسا فاطمہ جنّت سے آئ ہے
ماتم ہے مرتضیٰ کا محمّد دہائی ہے
شعبے انیس کیا آیی اداسی ساتھ لائی ہے
قضا حیدر سے ملنے مسجدے کوفہ میں آی ہے
ہوئی محراب بھی رنگین مسللہ تر ہوا سارا
شخی نے سجداۓ خالق میں و ضربت لگائی ہے
کیا خیبر شکن پر وار ہے سجدے میں ظالم نے
زہر آلودہ تھی تلوار جو حیدر نے کھایی ہے
وصی حق کی مسجد میں شہادت ہو گی لوگوں
سنانی روکے یہ جبریل نے سبکو سنائی ہے
کیا کرتے تھے حیدر صبر کی تلقین بیٹوں کو
حسن کہتے تھے سر کو پیٹ کے نانا دہائی ہے
کہا حسنین سے حیدر نے سبکو بھیج دو واپس
صداے سانے زہرہ مجھے پردرد آی ہے
کیا یہ کسنے کاری وار ہے بابا باتیں تو
ذرا یہ زخم تو دیکھیں جبیں تک تیغ آی ہے
یہاں پرسے کو آی ہے نبی کی لاڈلی بیٹی
ظہیرغمزدہ جب سے سیف ماتم بچھایی ہے
وہیں ملیگی ہراک افتخار کی صورت
ملک جہاں پا کھڈے ہوں قطار کی صورت
ہے نیم ماہ مبارک حسن کی آمد ہے
کھلی ہوئی ہے ہر اک روضدار کی صورت
کھلا جو گلشانے کوثر میں آج پہلا پھول
قران دیکھ رہا ہے بہار کی صورت
نبی کے کاندھ پا حسنین زلف ہاتھوں میں
زمانہ دیکھے ذرا لاڈ پیار کی صورت
امیر شام کی کھیتی اجاڈ دی اسنے
چلی ہے صلح حسن زلفیرار کی صورت
بدی صفائی سے ظالم کا سر اتارا ہے
قلم کی نوک چلی تیز دھار کی صورت
کوئی بلا بھی تو کوسوں نظر نہیں آی
پڑھی جو ناد علی اک حصار کی صورت
ہے دل میں بغزے علی اور نماز روزے بھی
ملینگے سارے عمل تمکو خار کی صورت
دوائی اسکی فقط ہے علی علی کہنا
چڈھا جو بغزے علی ہے بخار کی صورت
نبی کی بیٹی نے رب سے دعایں مانگی ہیں
زمانہ دیکھیے ذرا ہمسے پیار کی صورت
بچھا کے فرشے ازمت کرو ریاکاری
کیوں توڑتے ہو بھلا اعتبار کی صورت
دعا کرو کے حکومت میں اے ظہیر تیرا
شمار مولا کریں جا نثار کی صورت
بصد خلوص بصد احترام کہتے ہیں
حسن کو بادشاہ خاصو عام کہتے ہیں
تمام عظمت انکا طواف کرتی ہیں
انہیں حسین بھی اپنا امام کہتے ہیں
غدیر خم کا سبھی سے پیام کہتے ہیں
نبی کے بعد علی کو امام کہتے ہیں
علی کے بعد حسن کا مقام آتا ہے
انہیں حسین بھی اپنا امام کہتے ہیں
جو لتفے خاص حمدے کبریا میں
ہے و ہی لتفو کرم انکی سنا میں
مہک جنّت کی پھیلی ہے فضا میں
حسن کا جشن ہے اہل ولا میں
میاں صدقہ بتیگا پنجتن کا
حسن کا جشن ہے اہل ولا میں
نبی کو مل گیی کوثر کی دولت
حسن کا جشن ہے اہل ولا میں
در زہرا پا یہ جبریل بولے
ہے جلوہ مصطفیٰ کا مجتبیٰ میں
ردا میں نور کوثر ضوفشاں ہے
نبی کے دونو بیٹے ہیں کیسا میں
شرایط پر حسن کی صلح ہونا
ستم کا سر ہے یہ تشتے تلا میں
نہ کرنا جنگ حسن کا صلح کرنا
پتا چل جائے گا کربوبلا میں
ہمیں جنّت ملیگی لازمی ہے
تردّد ہی نہیں انکی عطا میں
ہر فضیلت کو شرف بس کھانا حیدرمیں ہے
خود نبی پاک کو راحت ملی اس گھر میں ہے
جو رکھ مومن کھلا دے اور دل باطل ہلا
آج بھی اک ایسی طاقت نعرا حیدر میں ہے
آمد شبّر سے دیکھو رحمتوں ہے نوزول
آج مسجد مصطفیٰ بھی نور کے محور میں ہے
کون ابتر ہو گیا ہے کسکی ہے نسلے کثیر
کس پا یہ ظالم تبررا سورہ کوثر میں ہے
یہ سلہے شبّر ہے یا سلہے رسول الله ہے
دیکھ کریہ خود امیرے شام بھی چکّر میں ہے
مینے رکھا تھا سجاکر پرچمے عبّاس کو
پنجتن کا آنا جانا ٹیب سے میرے گھر میں ہیں
عقل کے اندھے چلے قتلے رسول الله کو
یہ پتا نہ کر سکے کے کون اس بستر میں ہے
دیکھ کر لفظوں کی تیزی خود یہ بولی ذولفقار
بازو حیدر کی طاقت خامہ شبّر میں ہے
یہ سعادت ہے تیری جو نوکری مہدی ملی
اب تو تیرا نام بھی شاہ کے نوکر میں ہے
جو توقیر حسن و توقیر نبی ہے
حسن کا حسن تصویر نبی ہے
نا کرنا جنگ یہ بتلا رہا ہے
حسن کا خلق شمشیر نبی ہے
و کرتے جنگ دنیا دیکھ لیتی
حسن کے پاس تدبیرنبی ہے
حسن نے صلح کر کے یہ بتایا
و ہم ہیں جنسے تنویر نبی ہے
نہ دو کاغذ قلم یہ ہی چرچا رہیگا
یہ صلح نامہ تحریر نبی ہے
ہے خدا کا نور یکساں تو نبی کے گھر میں ہے
یہ علی و فاطمہ شببر میں شبّر میں ہے
دوسرا مہرے امامت بیت پیغمبر میں ہے
ماہے رمضاں کی سعادت آمدے شبّر میں ہے
آمد شبّر سے دیکھو رحمتوں ہے نوزول
حیدری مسجد بھی جیسے نور کے محور میں ہے
انکے دستر خان سے رونق گھروں میں چھائی ہے
یانی میلادے حسن آج تو ہر گھرمیں ہے
بھائی کی نصرت کا جذبہ عزم استقلال بھی
ہر ہنر جنگے حسن کا قسم مضطر میں ہے
شیخ جی کیسے کہیں ابتر رسول الله کو
نسلے احمد کا پتا تو سورہ کوثر میں ہے
اپنا بستر لکے تم چایے جہاں پھرتے پھرو
خلد میں جانے کا راستہ الفتے حیدر میں ہے
سلہے شبر ہے کے یہ سلہے رسول الله ہے
کھلبلی چھائی ہوئی کیوں ظلم کے دفتر میں ہے
ظلم سے سمبھلیگا کیسے بارے صلح مجتبیٰ
بازو حیدر کی طاقت خامہ شبّر میں ہے
بس لگا کر دیکھنا نارا ایک حیدر ظہیر
خود پتا چل جاے گا کون کس لشکر میں ہے
مہکی ہوئی فضا جو نبی کے چمن کی ہے
آمد علی کے گھر میں کسی گلبدن کی ہے
اک ماہ میں ہے دونو کی آمد کا اہتمام
قران آے گا ابھی آمد حسن کی ہے
کاغذ قلم تو تمنے نبی کو دیا نہیں
آل نبی سے دشمنی کس سوئے ظن کی ہے
صلح حسن کو دیکھ کے حیران ظلم ہے
ہر شرط مجتبیٰ کی رسول ضمن کی ہے
دنیا سے خلفشار مٹانے کے واسطے
سارے جہاں کو آج ضرورت حسن کی ہے
اس واسطے بھی دین کے دشمن ہیں خوف میں
پردے سے رہنمائی امام ضمن کی ہے
صلح حسن ہو یا کے ہو سلہے نبی ظہیر
تحریر ایک جیسی برابر وزن کی ہے