Namaz-e-Marefat hai tazkera Masooma-e-Qum ka

کیا کرتا ہوں یوں بھی تذکرہ معصومہ قم کا
پیۓ مدحت سہی نوکر بنا مسسومہ قم کا

ہے ہراک لفظ میں لتفے سناۓ فاطمہ زہرہ
قصیدہ یوں بھی ہے کچھ خاص سا معصومہ قم کا

ملیگا اجر تمکو فاطمہ زہرا کا ہی لوگوں
زیارت کا شرف گر مل گیا معصومہ قم کا

جدائی بھائی کی اک پل بھی کب انکو گوارا ہے
ملا ہے کربلا سے سلسلہ معصومہ قم کا

شرف ہے مومنوں کا اور یہ معراج الفت ہے
سنا مولا رضا کی تذکرہ معصومہ قم کا

ملیگا علم حکمت انکے در پے آج بھی تمکو
یہ زندہ آج بھی ہے معجزہ معصومہ قم کا

حفاظت ہو ہر اک مومن کی اے مولا رضا شر سے
جھکاے سر کھڈا ہوں واسطہ معصومہ قم کا

جو قسمت لے گی اک بار روزے تک مجھے مہدی
گدا بنکر رہونگا میں صدا معصومہ قم کا

Chali hai Sulh Hasan Zulfeqaar Ki Soorat

وہیں ملیگی ہراک افتخار کی صورت
ملک جہاں پا کھڈے ہوں قطار کی صورت

ہے نیم ماہ مبارک حسن کی آمد ہے
کھلی ہوئی ہے ہر اک روضدار کی صورت

کھلا جو گلشانے کوثر میں آج پہلا پھول
قران دیکھ رہا ہے بہار کی صورت

نبی کے کاندھ پا حسنین زلف ہاتھوں میں
زمانہ دیکھے ذرا لاڈ پیار کی صورت

امیر شام کی کھیتی اجاڈ دی اسنے
چلی ہے صلح حسن زلفیرار کی صورت

بدی صفائی سے ظالم کا سر اتارا ہے
قلم کی نوک چلی تیز دھار کی صورت

کوئی بلا بھی تو کوسوں نظر نہیں آی
پڑھی جو ناد علی اک حصار کی صورت

ہے دل میں بغزے علی اور نماز روزے بھی
ملینگے سارے عمل تمکو خار کی صورت

دوائی اسکی فقط ہے علی علی کہنا
چڈھا جو بغزے علی ہے بخار کی صورت

نبی کی بیٹی نے رب سے دعایں مانگی ہیں
زمانہ دیکھیے ذرا ہمسے پیار کی صورت

بچھا کے فرشے ازمت کرو ریاکاری
کیوں توڑتے ہو بھلا اعتبار کی صورت

دعا کرو کے حکومت میں اے ظہیر تیرا
شمار مولا کریں جا نثار کی صورت

Hasan ka Jashn hai ehle wila main

جو لتفے خاص حمدے کبریا میں
ہے و ہی لتفو کرم انکی سنا میں

مہک جنّت کی پھیلی ہے فضا میں
حسن کا جشن ہے اہل ولا میں

میاں صدقہ بتیگا پنجتن کا
حسن کا جشن ہے اہل ولا میں

نبی کو مل گیی کوثر کی دولت
حسن کا جشن ہے اہل ولا میں

در زہرا پا یہ جبریل بولے
ہے جلوہ مصطفیٰ کا مجتبیٰ میں

ردا میں نور کوثر ضوفشاں ہے
نبی کے دونو بیٹے ہیں کیسا میں

شرایط پر حسن کی صلح ہونا
ستم کا سر ہے یہ تشتے تلا میں

نہ کرنا جنگ حسن کا صلح کرنا
پتا چل جائے گا کربوبلا میں

ہمیں جنّت ملیگی لازمی ہے
تردّد ہی نہیں انکی عطا میں

Bazu-e-Haider ki taqat khama-e-Shabbar main hai (Mohd Mehdi – Mehdi)

ہر فضیلت کو شرف بس کھانا حیدرمیں ہے
خود نبی پاک کو راحت ملی اس گھر میں ہے

جو رکھ مومن کھلا دے اور دل باطل ہلا
آج بھی اک ایسی طاقت نعرا حیدر میں ہے

آمد شبّر سے دیکھو رحمتوں ہے نوزول
آج مسجد مصطفیٰ بھی نور کے محور میں ہے

کون ابتر ہو گیا ہے کسکی ہے نسلے کثیر
کس پا یہ ظالم تبررا سورہ کوثر میں ہے

یہ سلہے شبّر ہے یا سلہے رسول الله ہے
دیکھ کریہ خود امیرے شام بھی چکّر میں ہے

مینے رکھا تھا سجاکر پرچمے عبّاس کو
پنجتن کا آنا جانا ٹیب سے میرے گھر میں ہیں

عقل کے اندھے چلے قتلے رسول الله کو
یہ پتا نہ کر سکے کے کون اس بستر میں ہے

دیکھ کر لفظوں کی تیزی خود یہ بولی ذولفقار
بازو حیدر کی طاقت خامہ شبّر میں ہے

یہ سعادت ہے تیری جو نوکری مہدی ملی
اب تو تیرا نام بھی شاہ کے نوکر میں ہے

Hasan ka Husn Tasveer-e-Nabi hai

جو توقیر حسن و توقیر نبی ہے
حسن کا حسن تصویر نبی ہے

نا کرنا جنگ یہ بتلا رہا ہے
حسن کا خلق شمشیر نبی ہے

و کرتے جنگ دنیا دیکھ لیتی
حسن کے پاس تدبیرنبی ہے

حسن نے صلح کر کے یہ بتایا
و ہم ہیں جنسے تنویر نبی ہے

نہ دو کاغذ قلم یہ ہی چرچا رہیگا
یہ صلح نامہ تحریر نبی ہے

Bazu-e-Haider ki taqat khama-e-Shabbar main hai

ہے خدا کا نور یکساں تو نبی کے گھر میں ہے
یہ علی و فاطمہ شببر میں شبّر میں ہے

دوسرا مہرے امامت بیت پیغمبر میں ہے
ماہے رمضاں کی سعادت آمدے شبّر میں ہے

آمد شبّر سے دیکھو رحمتوں ہے نوزول
حیدری مسجد بھی جیسے نور کے محور میں ہے

انکے دستر خان سے رونق گھروں میں چھائی ہے
یانی میلادے حسن آج تو ہر گھرمیں ہے

بھائی کی نصرت کا جذبہ عزم استقلال بھی
ہر ہنر جنگے حسن کا قسم مضطر میں ہے

شیخ جی کیسے کہیں ابتر رسول الله کو
نسلے احمد کا پتا تو سورہ کوثر میں ہے

اپنا بستر لکے تم چایے جہاں پھرتے پھرو
خلد میں جانے کا راستہ الفتے حیدر میں ہے

سلہے شبر ہے کے یہ سلہے رسول الله ہے
کھلبلی چھائی ہوئی کیوں ظلم کے دفتر میں ہے

ظلم سے سمبھلیگا کیسے بارے صلح مجتبیٰ
بازو حیدر کی طاقت خامہ شبّر میں ہے

بس لگا کر دیکھنا نارا ایک حیدر ظہیر
خود پتا چل جاے گا کون کس لشکر میں ہے

Sare Jahan ko ko aaj zaroorat Hasan ki hai

مہکی ہوئی فضا جو نبی کے چمن کی ہے
آمد علی کے گھر میں کسی گلبدن کی ہے

اک ماہ میں ہے دونو کی آمد کا اہتمام
قران آے گا ابھی آمد حسن کی ہے

کاغذ قلم تو تمنے نبی کو دیا نہیں
آل نبی سے دشمنی کس سوئے ظن کی ہے

صلح حسن کو دیکھ کے حیران ظلم ہے
ہر شرط مجتبیٰ کی رسول ضمن کی ہے

دنیا سے خلفشار مٹانے کے واسطے
سارے جہاں کو آج ضرورت حسن کی ہے

اس واسطے بھی دین کے دشمن ہیں خوف میں
پردے سے رہنمائی امام ضمن کی ہے

صلح حسن ہو یا کے ہو سلہے نبی ظہیر
تحریر ایک جیسی برابر وزن کی ہے

Jang Abbas se karne ko na lashkar nikla

جب بھی غازی کا علم گھر سے سجا کر نکلا
پھر کوئی بانے شر گھر سے نہ بہار نکلا

غرور لشکرے باطل کا ڈبویا جسنے
علقمہ چھین کے و مشک بھی بھر کر نکلا

ثانی حیدر کررار ہے میرا غازی
کیا کوئی ثانی عبّاس دلاور نکلا

کیسی ہیبت ہے کے اس پار جا نہیں سکتے
جری کا خط بھی تو سرحد کے برابر نکلا

تماچہ پانی کے رخسار پا مارا ایسے
پیاسا دریا میں گیا پیاسا ہی بہار نکلا

چلی جو تیغ جاری کی تو پھر سر میداں
جنگ عبّاس سے کرنے کو نہ لشکر نکلا

شجاعتوں نے بھی بوسے لئے بلین لیں
پسر علی کا جو صفین کو سر کر نکلا

عقیدتوں کو جو کاغذ پا مینے لکھا ظہیر
جری کی شان میں ہر لفظ معتبر نکلا

Jamal-e-Mustafa Allah ne Rakhkha hai Akbar main

خوشی فرزند کی آی ہے یہ کہتی ہوئی گھر میں
جمال احمد مختار ہے لیلیٰ کے دلبر میں

خدا کو خود کی خلقت اس قدر پیاری لگی لوگوں
بنائی پھر وہی تصویر ہم شکلے پیامبر میں

جمال حضرت یوسف دوبارا پھر نہیں دیکھا
جمال مصطفیٰ الله نے رکھا ہے اکبر میں

ہو گر مخلص تو یہ تم کو کہیں سے بھی بلا لینگے
اثر دیکھا نہیں ہے تھمنے کیا اذان اکبر میں

ہے جشن دلبر سرور جو چاہو مانگ لو ظہیر
ملیگا و بھی جو ہے نہیں تیرے مقدّر میں

Islam ki hayat badha di husain ne

ظالم کو اس طرح بھی سزا دی حسین نے
بیعت کے گھر میں آگ لگا دی حسین نے

آنگن میں آج فاطمہ زہرا کے دھوم ہے
شعبان میں ہی عید کرا دی حسین نے

ترمیم کرکے بگڑے مقدّر میں دیکھئے
راہب تیری تقدیر بنا دی حسین نے

انکی عطا تو عرش مکینو سے پوچھئے
رہ کر زمیں پا روٹی کھلا دی حسین نے

دم گھٹ رہا تھا دینے محمّد کا دوستوں
سانسوں سے اپنی اسکو جلا دی حسین نے

تیروں پا جہ نماز بچھا کر سرے میداں
پڑھ کر نماز شکر دکھا دی حسین نے

جلتی زمیں پا سجدہ خالق کے ساتھ ساتھ
اسلام کی حیات بڑھا دی حسین نے

اسلام کو تو جان عطا کی مگر یزید
اوقات تیری سبکو بتا دی حسین نے

کربو بلا میں صرف یہ سجدہ نہیں کیا
ہمکو رہے نجات دکھا دی حسین نے

نا قبیلے تلافی گناھوں کے با وجود
حر تیری موحبّت کی جزا دی حسین

کرکے سوال قسم نوشہ سے ظہیر
خود موت کو ہی موت چکھا دی حسین نے